نیوزڈیسک
سرینگر//حریت کانفریس کے چیرمین میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جاری کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ تصادم کو محض ایک سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی قیادت سے پْر زور اپیل کی کہ وہ امن و مکالمے کو ترجیح دیں اور مستقل جنگ بندی کو یقینی بنائیں تاکہ بے گناہ شہریوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا،’ہم ایک بار پھر اس اذیت ناک صورت حال سے گزرے جو اس پرانے اور سلگتے ہوئے تنازع کی دین ہے، جو دو ایٹمی طاقتوں کو تباہ کن جنگ کے دہانے تک لے آیا ہے۔ محدود کشیدگی بھی سرحدی علاقوں کے لوگوں کے لیے قیامت سے کم نہیں۔ درجنوں جانیں ضائع ہوئیں، مکانات خاکستر ہوئے اور معصوم بچے لقمہ اجل بنے۔‘انہوں نے کہا کہ بارہ سالہ جڑواں بہن بھائی زین اور عروہ کی مسکراتی تصویر اب ایک مستقل درد بن گئی ہے، جب کہ ان کی والدہ غم کی چٹان بنی کھڑی ہیں اور والد اسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔یہ دل کو چیر دینے والا منظر ہے، جو ہمیں اس تنازع کی سنگینی کا احساس دلاتا ہے۔میرواعظ نے کہا کہ دنیا کشمیر کو ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ سمجھتی ہے، جب کہ بھارت اور پاکستان اسے محض زمینی تنازع کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن ہمارے لیے، جو روز اس کے زخم جھیلتے ہیں، یہ ایک ایسا ناسور ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ کب تک ہم خوف اور غیر یقینی کے سائے میں جیتے رہیں گے؟ کب تک ہم اس ظلم کا شکار بنتے رہیں گے؟انہوں نے سوال اٹھایا کہ،آج سب کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہیں، مگر کشمیریوں سے کوئی بات نہیں کرتا۔ ہم سے، جو یہاں کے پشتینی باشندے ہیں، کسی نے نہیں پوچھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں، ہماری نسلوں کے لیے ہمارے خواب کیا ہیں؟ کیا ہمارا امن کے لیے ترسنا کبھی ختم ہوگا؟انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام جنگ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ہم حل چاہتے ہیں، نہ کہ اس تنازع کا تسلسل۔ ہماری خواہش ہے کہ ڈی جی ایم اوز کی جانب سے اعلان کردہ عارضی جنگ بندی مستقل نوعیت اختیار کرے۔ جب فوجی افسران بات کر سکتے ہیں تو سیاسی قیادت کیوں نہیں؟میرواعظ نے تصادم میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔ انہوں نے کہا کہدارالخیر میرواعظ منزل متاثرہ خاندانوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے، جو بھی ممکنہ امداد یا ریلیف ہم دے سکتے ہیں، وہ دیا جائے گا۔انہوں نے صاحب ثروت افراد سے بھی اپیل کی کہ وہ ایل او سی کے متاثرین کی بحالی کے لیے آگے آئیں، کیونکہ یہی لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مستقل خطرے میں جیتے ہیں۔عوامی ایکشن کمیٹی پر عائد پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ ہم اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو چیلنج کر رہے ہیں، مگر براہ راست اس میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے نزدیک ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں۔ جلد ہی اس بارے میں مکمل تفصیلات عوام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
